سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے فل کورٹ ریفرنس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہاں ہم نے غلطیاں کیں، ریکوڈک ہو یا ذولفقار بھٹو کیس ہم سےغلطیاں ہوئیں، ہمارا مسئلہ ہے کہ انا بڑی بن گئیں، ہم نے مارشل کی توثیق کی،ہمیں ملک کا بھی سوچنا چاہیئے، اگر چیف جسٹس مقدمات پر بینچ نہ بنائے تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا،سول پٹیشن اور سول اپیل سے متعلق رولز آئین سے متصادم ہیں، میں نے آپ کو ہمالیہ جیسی عدالتی غلطی کا بتایا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پہلے عدالتی دن پر فل کورٹ کی سربراہی کی، سپریم کورٹ کے 15 ججز پر مشتمل فل کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت کی جس کو براہ راست ٹی وی پر دکھایا گیا۔
کھلی عدالت میں ہی چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا فیصلہ لکھوایا اور حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزاروں اور اٹارنی جنرل کو بینچ کے سوالات کے جواب دینا ہیں، چیف جسٹس نےکہا پریکٹس اینڈپروسیجر کے ذریعے درپیش چیلنج پر اپنے دو سینیئر ججز سے مشاورت کریں گے، جسٹس سردارطارق اورجسٹس اعجازالاحسن نے مانا کہ ہم اپنےطورپرپریکٹس اینڈپروسیجر طے کریں گے۔
سپریم کورٹ نے حکم دیاکہ تمام فریقین 25 ستمبر تک جواب جمع کرا دیں، عدالت کے سامنے فل کورٹ تشکیل کی درخواست کی گئی تھی، درخواست گزاروں نے فل کورٹ پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور سپریم کورٹ نے درخواستوں پر فل کورٹ تشکیل دیا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ اپنے ساتھی ججوں سے مشورہ کر کے بینچ بنا رہا ہوں، آپ سب برا نہ مانیں تودلائل مختصراورجامع رکھا کریں۔
سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پربینچزبنانے سے متعلق حکم امتناع ختم کردیا اور ایکٹ کےمطابق چیف جسٹس دو سینیئر ججز سے مشاورت کرکے بینچ تشکیل دیں گے۔
سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ میں شامل دیگرمعاملات پرسماعت جاری رہے گی اور فل کورٹ سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔