اکثریتی فیصلہ چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال نے تحریر کیا ہے جبکہ فیصلے میں 2 صفحات پر مشتمل جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ اکثریتی فیصلہ کل رات کو موصول ہوا، اکثریتی فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا، اتنے کم وقت میں اختلاف کی وجوہات تحریرنہیں کرسکتا، تفصیلی اختلافی نوٹ بعد میں جاری کروں گا۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھاکہ میرے نزدیک کیس کا بنیادی سوال نیب ترامیم نہیں،پارلیمان کی بالادستی ہے، پارلیمان پاکستان کے 24 کروڑ عوام کے چنے گئے نمائندوں کا ایوان ہے، یہ سوال پارلیمانی آئینی جمہوریت کی اہمیت کا ہے، یہ سوال ریاست کے 3 ستونوں اور طاقت کی تقسیم کا ہے، یہ معاملہ محدودعدالتی حدود کا ہے جس میں غیرمنتخب ججز ہوتے ہیں۔
انہوں نے اختلافی نوٹ میں قرار دیاکہ بنیادی حقوق سمیت کسی قانون کی واضح خلاف ورزی نہیں ہوئی، فیصلہ منتخب نمائندوں کے ذریعے اختیارات کے استعمال کےآئینی اصول سےمطابقت نہیں رکھتا، فیصلہ اختیارات کی تقسیم کے اصول سے مطابقت نہیں رکھتا۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھاکہ یہ طےنہیں کیاگیا کہ اراکین پارلیمنٹ کا احتساب کیسے بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے، نیب قانون کا اکثریتی فیصلہ خود بنیادی آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ پارلیمان کے پاس قانون واپس لینےکا بھی اختیار ہے لہٰذا ساتھی ججز کےفیصلے سےاختلاف کرتےہوئےاس پٹیشن کو مستردکرتاہوں۔