اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس میں کیس کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر سوال اٹھاتے ہوئےکہا کہ فیصلے پر عمل کیوں نہیں ہوا؟ سب اتنا ڈرے ہوئے کیوں ہیں؟
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل تین رکنی بینچ فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی سماعت کی۔
پیمرا اور انٹیلی جنس بیورو کے بعد وفاق نے بھی نظرثانی درخواست واپس لے لی۔اٹارنی جنرل عثمان منصور نے کہا ہے کہ وفاق اس کیس میں دفاع نہیں کرنا چاہتا، اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ اب کیوں کیس واپس لینا چاہتے ہیں؟ پہلے کہا گیا فیصلے میں غلطیاں ہیں، اب واپس لینے کی وجوہات تو بتائیں۔
دوران سماعت پی ٹی آئی نےبھی نظرثانی اپیل واپس لینے کا بتایا، اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کس کی ہدایات پر واپس لے رہے ہیں؟ چیف جسٹس نے علی ظفر سے کہا اگر آپ فریق بننا چاہتے ہیں تو عدالت آپ کو اجازت دے گی، علی ظفر نے جواب دیا کہ نہیں ہم اس کیس میں فریق نہیں بننا چاہتے۔
چیف جسٹس نے کہا پہلے کہا گیا تھا فیصلہ غلطیوں سے بھرا پڑا ہے، اب کیا فیصلے میں غلطیاں ختم ہوگئیں؟کل کوئی یہ نہ کہے ہمیں سنا نہیں گیا، سوال تو اٹھتا ہے کہ فیصلے پرعمل کیوں نہیں ہوا؟ آخر سب اتنے ڈرے کیوں ہوئے ہیں؟ان فضول قسم کی درخواستوں پراٹارنی جنرل پرجرمانہ عائد کرنا چاہیے ۔آرکیسٹرا میں سب میوزک بجاتے ہیں اور سامنے ایک ڈنڈا لیے کمانڈ دے رہا ہوتا ہے، پاکستان میں وہ چلتا ہے جو پوری دنیا میں نہیں ہوتا، پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ ’حکم اوپر سے آیا ہے‘، نعوذ باللہ اوپرسے حکم اللہ کا نہیں یہاں کسی اورکا ہوتا ہے، کراچی میں 55 لوگ مرگئے،کوئی ایکشن نہیں ہوا، یہاں جو بھی ہو کہا جاتا ہے ’مٹی پاؤ’، لوگ مرجائیں مٹی پاؤ
اس دوران اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پرعملدرآمد کی یقین دہانی کرتے ہوئے کہا کہ کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کریں گے لیکن عدالت وقت دے دے۔
بعد ازاں عدالت نے نظرثانی درخواستوں پر سماعت یکم نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے فریقین کو 27 اکتوبر تک جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔