بیلجیم کی ریاستی سیکرٹری برائے پناہ اور ہجرت نکول ڈی مور نے اعلان کیاکہ ناکافی گنجائش کے باعث خاندانوں، خواتین اور بچوں کو ترجیح دی جانی چاہیے اور اسی سبب اب برسلز حکومت کے پاس میسر پناہ کی جگہیں خاص طور پر بچوں والے خاندانوں کے لیے مختص کی جائیں گی۔
ڈی مور نے کہا کہ آنے والے مہینوں میں پناہ گزینوں پر دباؤ بڑھنے کی توقع ہے اور ان کی حکومت اپنی اس بات پر قائم ہے کہ بچوں کواس موسم سرما میں سڑکوں پر نہیں رہنا چاہیے۔
یورپی یونین کی پناہ گزینوں سے متعلق ایجنسی کے مطابق گزشتہ برس پورے بلاک اور اس سے منسلک ممالک آئس لینڈ، اسرائیل، ناروے، سربیا، ترکی اور برطانیہ میں پناہ کے لیے 71 فیصد درخواست گزار تنہا مرد تھے۔ سال دو ہزار بائیس کے آخر میں تقریباً 636,000 پناہ گزینوں کے مقدمات زیر التوا رہے۔
بیلجیم کے اس اقدام کو انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا، 46 ممالک پر مشتمل کونسل آف یورپ نے اس کی مخالفت کی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل بیلجیم کے ڈائریکٹر فلپ ہینس مینز نے کہا بیلجیم کی حکومت صرف انسانی حقوق پر روک نہیں لگا رہی بلکہ وہ پناہ کے متلاشی تنہا مردوں کے استقبال کے عمل کو ‘معطل’ کر کے انہیں دفن کر رہی ہے